مسجد اقصی کے امام وخطیب اور بیت المقدس میں سپریم اسلامی کونسل کے
چیئرمین الشیخ عکرمہ صبری نے اسرائیلی کنیسٹ سے فلسطینی مساجد میں اذان پر
پابندی کا منظور کردہ قانون مسترد کردیا ہے۔مرکزاطلاعات فلسطین کی ایک خبر
کے مطابق الشیخ عکرمہ صبری نے کہا ہے کہ اذان پر پابندی کا نیا اسرائیلی
قانون مسلمانوں کے مذہبی شعائر اور عبادت کے امور میں کھلی مداخلت ہے اور
وہ اس قانون پر عمل درآمد کی پابندی نہیں کریں گے۔
شیخ عکرمہ نے کہا کہ جس شخص کو اذان کی آواز تکلیف پہنچا رہی ہے ، وہ بیت
المقدس چھوڑ دے۔ فلسطین اور بیت المقدس مسلمانوں کے ہیں اور یہاں کی مساجد
میں پانچوں نمازوں کے لیے اذان کی صدائیں بلند ہوتی رہیں گی۔الشیخ عکرمہ
صبری نے کہا کہ عام حالات میں نماز فجر کی ایک ہی اذان ہوتی ہے جب کہ ماہ
صیام میں تہجد کے لیے الگ اذان دی جاتی ہے۔ اس طرح فلسطینی مساجد میں ماہ
صیام کے دوران نماز فجر کی دو اذانیں ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی
حکومت بالعموم تمام نمازوں کی اذانوں بالخصوص نماز فجر کی اذان پر پابندی
عاید
کررہی ہے مگر ہم صہیونی ریاست کی اس پابندی کو کسی صورت میں قبول نہیں
کریں گے۔
الشیخ عکرمہ صبری نے کہا کہ مسجد اقصی میں پہلی مرتبہ اذان 15 ہجری بمطابق
636کو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں جلیل القدر صحابی رسول
حضرت بلال رباح نے دی تھی۔ اس کے بعد سے آج تک 15 صدیوں میں بیت المقدس
میں اذان کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ قیامت تک بیت المقدس اور فلسطین کی تمام
مساجد میں اذان کی صدائیں بلند ہوتی رہیں گی۔
خیال رہے کہ دو روز قبل اسرائیلی کنیسٹ نے ایک متنازع مسودہ قانون پر
ابتدائی رائے شماری کرانے کے بعد اس کی منظوری دی تھی جس میں بیت المقدس
اور فلسطین کے دوسرے شہروں کی مساجد میں اذان پر پابندی کا فیصلہ کیا گیا
تھا۔ قرارداد کی حمایت میں 120 کے ایوان میں 55 نے حمایت اور 48 نے مخالفت
کی تھی۔ اس قانون کے تحت رات گیارہ بجے سے صبح سات بجے تک مساجد میں
لاؤڈ اسپیکر پر اذان نہیں دی جاسکتی۔ قانون کے تحت خلاف ورزی کرنے پر مسجد
کی انتظامیہ کو 5سے 10 ہزار شیکل جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ امریکی کرنسی میںی
یہ رقم 1300 سے 2600 ڈالر کے مساوی ہے۔